شیطان جن کی حقیقت اور تباہ کاریاں | Imam mehdi

جنات کی حقیقت

شیطان کا بہروپ
کبھی شیاطین انسان کے پاس آتے ہیں تو وسوسہ اندازی کے ڈھنگ میں نہیں بلکہ کسی انسان

کی شکل میں نظر آتے ہیں، کبھی صرف آواز سنائی دیتی ہے جسم دکھائی نہیں دیتا، کبھی

عجیب و غریب روپ ہوتا ہے۔ شیاطین لوگوں کے پاس آکر کبھی یہ کہتے ہیں کہ وہ جن ہیں

کبھی جھوٹ بولتے اور کہتے ہیں کہ وہ فرشتے ہیں، کبھی اپنے آپ کو غیب داں بتاتے ہیں،

کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تعلق روحوں کی دنیا سے ہے۔

شیطان کا ہم کلام ہونا


بہر حال شیاطین کچھ لوگوں سے ہمکلام ہوتے ہیں اور ان سے ان کی براہ راست گفتگو ہوتی ہے

یا انسانوں ہی میں سے کسی شخص کی زبان سے شیطان بات کرتے ہیں
اس شخص کو ثالت کہا جاتا ہے کبھی خط و کتابت کے ذریعہ گفتگو ہوتی ہے۔ کبھی شیطان

بڑے بڑے کام کرتے ہیں، انسان کو اٹھا کر ہوا میں لے اڑتے ہیں اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ

پہنچا دیتے ہیں، کبھی وہ ان سے کوئی چیز طلب کرے تو اس کے سامنے حاضر کر دیتے ہیں، لیکن شیطان

اس قسم کے کام انہی گمراہ لوگوں کے لئے کرتے ہیں جو اللہ رب السموات والارض کے منکر اور بد عمل ہوتے ہیں۔

ایسے لوگ ظاہر میں دیندار اور متقی نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں حد درجہ بے راہ رو اور فاسق ہوتے ہیں،

علماء متقدمین و متاخرین نے اس تعلق سے بہت سی باتیں ذکر کی ہیں جن کو جھٹلایا نہیں

جا سکتا نہ ان پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہ تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں۔

انہی میں سے علاج کا وہ واقعہ بھی ہے جس کو ابن تیمیہ نے ذکر کیا ہے۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں:

وہ (حلاج) خوبصورت تھا، اس کے پاس کچھ شیاطین تھے، جو اس کی خدمت بجا لاتے تھے

شیطان جن کا مٹھائی چوری کرنا

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے حلاج اور اس کے کچھ ساتھی ابو تمہیں نامی پہاڑ پر تھے ، اس کے ساتھیوں نے

اس سے مٹھائی مانگی وہ قریب ہی کسی

جگہ پر گیا اور وہاں سے مٹھائی کی ایک پلیٹ لائی، بعد میں تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ وہ ین کی کسی

مٹھائی کی دوکان سے چرائی گئی تھی، اس کو اس علاقے کا شیطان اٹھا کر لایا تھا۔

ابن تیمیہ فرماتے ہیں: “علاج کے علاوہ شیطانی حالت رکھنے والے دوسرے لوگوں کے ساتھ بھی

ایسے واقعات بہت پیش آتے ہیں

واقعہ نمبر 2 پیر کا ہوا میں اڑنا

مثلاً ایک شخص جو ابھی (ابن تیمیہ کے زمانے میں) دمشق میں ہے اس کو شیطان صالحہ پہاڑ سے اٹھا کر

دمشق کی کسی مضافاتی بستی میں لے جاتا تھا وہ ہوا کے دوش پر اڑتا ہوا روشندان سے گھر کے اندر آجاتا

اور گھر میں بیٹھے ہوئے سب لوگ اس منظر کو دیکھتے رہتے

پھر رات کو وہ باب الصغیر (دمشق کے اس وقت کے چھ دروازوں میں سے ایک دروازہ) کے پاس آتا اور

وہاں سے وہ اور اس کا ساتھی دونوں اندر آجاتے، وہ نہایت بد کردار شخص تھا۔

ایک دوسرا شخص شاہدہ نامی بستی میں واقع شوبک قلعہ میں رہتا تھا، وہ بھی ہوا میں پرواز کر کے

پہاڑ کی چوٹی پر جاتا اور تمام لوگ اس کو دیکھتے رہتے، شیطان اس کو اٹھا کر لے جاتا تھا،

وہ رہزنی بھی کرتا تھا۔

یہ لوگ زیادہ تر بہت شرپسند ہوتے ہیں، ایسا ہی ایک شخص فقیر ابوالمجیب ہے لوگ

اندھیری رات میں ان کے لئے خیمہ نصب کرتے ہیں تقرب کے طور پر روٹیاں بناتے ہیں۔

وہ اللہ کا ذکر نہیں کرتے، وہاں نہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو اللہ کا ذکر جانتا ہو نہ کوئی ایسی

کتاب ہوتی ہے جس میں اللہ کا ذکر ہو، پھر وہ فقیر ہوا میں اڑتا ہے لوگ اس کو دیکھتے ہیں،

شیطان کے ساتھ اس کی گفتگو کو سنتے ہیں، کوئی ہنسے یا روٹی چرائے تو ڈفلی سے مار پڑتی ہے،

مارنے والا نظر نہیں آتا’ پھر لوگ جو باتیں پوچھتے ہیں شیطان بتاتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ وہ

اس کے لئے گائے گھوڑے یا کسی جانور کی نیاز کریں اور جانور کو بسم اللہ کہہ کر ذبح کرنے کے بجائے

اس کا گلا گھونٹ دیں، ایسا کرنے پر ان کی حاجت روائی کی جائے گی۔”

بدکار عامل

ایک عامل عورتوں کے ساتھ بدکاری اور بچوں کے ساتھ لونڈے بازی کرتا تھا وہ کہا کرتا تھا کہ میرے پاس

ایک کالا کتا آتا ہے جس کی آنکھوں کے سامنے دو سفید نقطے ہوتے ہیں، وہ مجھ سے کہتا ہے

فلاں بن فلاں نے تمہارے لئے نذر مانی تھی کل ہم اس کو تمہارے پاس لے کر آئیں گے، میں نے

تمہاری خاطر اس کی ضرورت پوری کر دی ہے، دوسری صبح کو وہ شخص اس کے پاس نذر لے کر آتا

اور یہ پیر جی اس کو شرف نیاز عطا کرتے۔


اسی پیر کے بارے میں ابن تیمیہ ذکر کرتے ہیں کہ اس نے کہا کہ : ”جب مجھ سے کسی چیز کو بدلنے کے لئے کہا جاتا

مثلاً یہ کہا جاتا کہ اس چیز کو لاؤن” (گوند جو بطور عطر و دوا استعمال ہوتا ہے) میں تبدیل کر دو تو

میں اس چیز کو بدل جانے کو اتنی دیر تک کہتا کہ مدہوش ہو جاتا، پھر اچانک میرے ہاتھ یا منہ میں لاؤن“

موجود ہوتا مجھے معلوم نہیں اس کو کون رکھتا تھا۔


پیر کہتا ہے کہ: میں چلتا تو میرے آگے آگے ایک سیاہ ستون ہوتا تھا جس میں
روشنی ہوتی۔ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ جب اس پیر نے توبہ کرلی، نماز روزے کا پابند ہو گیا

اور حرام چیزوں سے بچنے لگا تو کالا کتا غائب ہو گیا اور کسی چیز کو بدل دینے کی کیفیت بھی بند ہو گئی ،

اب وہ کسی چیز کو نہ لاذن میں تبدیل کرتا ہے نہ کسی دوسری چیز میں

شیطان جن کا انجیر اور پیسے چوری کرنا

گناہ گار دوسرے پیر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس کچھ شیطان تھے۔

جن کو وہ بعض لوگوں پر سوار کر دیتا تھا، آسیب زدہ شخص کے گھر والے

اس پیر کے پاس آتے

اور اس سے شفا کی درخواست کرتے، پیر اپنے ماتحت شیطانوں سے کہتا وہ اس شخص کو

چھوڑ دیتے آسیب زدہ شخص کے گھر والے اس پیر کو خوب روپے دیتے، بعض اوقات جنات

اس پیر کے پاس لوگوں کا غلہ اور روپے چرا کر لاتے تھے۔

ایک مرتبہ کسی کے گھر میں گھروندے کے اندر کچھ انجیر رکھے ہوئے تھے، پیر نے جنوں سے انجیر

کی فرمائش کی انہوں نے انجیر حاضر کر دیا، گھر والوں نے جب گھروندے کو دیکھا تو انجیر غائب تھی.

ایک اور شخص کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کا علمی مشغلہ تھا، کچھ شیطان اس کو

گمراہ کرنے کے لئے آئے اور کہا ہم نے تم سے نماز معاف کر دی،

تم جو چاہو ہم تمہارے لئے حاضر کر دیں، چنانچہ وہ اس کے لئے مٹھائی یا پھل لے آتے

آخر کار وہ شخص کسی عالم دین کی خدمت میں حاضر ہوا

ان کے سامنے توبہ کی اور مٹھائی والوں کی اس نے جو مٹھائیاں کھائی تھیں ان کی قیمت ادا کی۔

شیطان کے گمراہ کرنے کے طریقے


شیطان کے گمراہ کرنے کے بعض طریقوں کو بیان کرتے ہوئے ابن تیمیہ کہتے ہیں
جن لوگوں سے نباتات بات کرتے ہیں میں ان کو خوب جانتا ہوں

ان سے حقیقت میں وہ شیطان بات کرتا ہےجو نباتات میں ہوتا ہے، میں ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں ،

جن سے درخت اور پتھر ہم کلام ہوتے اور کہتے ہیں

تم کو مبارک ہو اے اللہ کے ولی جب وہ آیتہ الکرسی پڑھتے ہیں۔ تو یہ چیز ختم ہو جاتی ہے

میں اس کو بھی جانتا ہوں جو پرندوں کے شکار کو جاتا ہے تو وہ اس سے کلام کرتے

اور کہتے ہیں

مجھے شکار کرو تاکہ میں غریبوں کی خوراک بن جاؤں یہ بات کرنے والا دراصل شیطان ہے

جو پرندوں کے جسموں میں ہوتا ہے

جیسا کہ شیطان انسان کے بدن میں داخل ہو کر لوگوں سے بات کرتا ہے۔

کچھ لوگ بند گھر میں ہوتے ہیں لیکن دروازہ کھلے بغیر وہ اپنے آپ کو باہر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح کچھ

لوگ باہر ہوتے ہیں لیکن دروازہ کھلے بغیر وہ خود کو دیکھتے ہیں کہ گھر میں ہیں۔ ان کو اصل میں

جنات تیزی کے ساتھ

گھر کے اندر کر دیتے ہیں یا گھر سے باہر نکال لیتے ہیں

امام مھدی ہوں میں

کبھی انسان کے پاس سے روشنی گزرتی ہے یا کبھی کوئی شخص اس کی ملاقات کے لئے آتا ہے۔

یہ سب شیطانوں کی طرف سے ہوتا ہے، شیطان انسان کے دوست احباب کی شکل میں آتے ہیں۔

بار بار آیتہ الکرسی پڑھی جائے، تو یہ چیز ختم ہو تی ہے۔” علامہ فرماتے ہیں

”میں اس شخص سے بھی واقف ہوں جس سے کوئی بات کرتا ہے

اور کہتا ہے : میں اللہ کا حکم ہوں اور اس کو یقین دلاتا اور کہتا ہوں کہ تم وہی

مہدی ہو جس کی نبی صلى الله عليه وسلم نے بشارت دی تھی، اس کے لئے کرامتیں ظاہر کرتا ہے

مثلاً اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں میں تصرف کرے ،

اگر اس کے دل میں پرندے کے دائیں یا بائیں جانے کا خیال ہوتا ہےتو پرندہ ادھر ہی جاتا ہے

جدھر وہ چاہتا ہے، اگر اس کے دل میں کسی جانور کے کھڑے ہونے، سونے یا جانے کا

خیال پیدا ہوتا ہے تو وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے

بظاہر کوئی حرکت نہیں ہوتی، شیاطین اس شخص کو مکہ لے جا کر واپس لاتے ہیں، اسی طرح اس

کے پاس خوبصورت اشخاص کو لاتے اور کہتے ہیں یہ اعلیٰ درجے کے فرشتے تمہاری ملاقات کے لئے آئے ہیں،

وہ اپنے دل میں کہتا ہے: یہ بے ریش جوان کے ہم شکل کیسے ہو گئے ہوں گے؟ سر اٹھا کر دیکھتا ہے

تو ان کے داڑھی ہوتی ہے شیطان اس سے کہتا ہے : تمہارے مہدی ہونے کی نشانی یہ ہے کہ

تمہارے جسم میں تل اگے گی، چنانچہ متل اگتی ہے اور وہ دیکھتا ہے، اس کے علاوہ بہت سی باتیں

ہوتی ہیں ، یہ سب شیطان کی فریب کاری ہے۔” (مجموعہ فتاوی ۳۰۰/۱۱)

بدکرداروں کا بری جگہوں پر جانا


علامہ فرماتے ہیں

”اہل ضلالت و بدعت جو غیر شرعی طریقے پر ریاضت و عبادت کرتے ہیں اور جنہیں کبھی کبھی

کشف بھی ہوتا ہے ایسے لوگ ان شیطانی جگہوں پر زیادہ جاتے ہیں۔

جہاں نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے اس لئے کہ وہاں ان پر شیطان نازل ہوتے ہیں اور راز کی باتیں بتاتے ہیں۔

جیسا کہ وہ کاہنوں کو بتاتے اور بتوں میں داخل ہو کر بت پرستوں سے باتیں کرتے ہیں۔


شیاطین ان لوگوں کی بعض کاموں میں مدد بھی کرتے ہیں جس طرح جادو گر اور بت پرست،

سورج پرست، چاند پرست اور ستارہ پرست قومیں شیطان کی عبادت کرتی اور اس کے سامنے ذکر و تسبیح

اور لباس و خوشبو کا تحفہ پیش کرتی ہیں، تو شیطان ان کی مدد اور مشکل کشائی کرتا ہے،

یہ قومیں شیطان کو ستاروں کی روحانیت کہتی ہیں۔ (مجموعہ فتاوی ۴۱/۱۹)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *