پیار کا پاپی | Piyar ka Papi | قسط 1

پیار کے پاپی


کیا ہوگا اس دور کا جب لڑکی بالغ ہونے سے پہلے ہی پیار کی وجہ سے کسی کے بستر گرم کر رہی ہو؟

وہ علاقہ ہندو جاٹوں کا تھا جس کے ایک قصبے کا تھانہ میرے پاس تھا۔

جاٹ عام ہندوؤں سے بہت مختلف تھے۔ یہ لڑائی مارکٹائی کرنے والے دلیر لوگ تھے۔

بھارت کی فوج میں ان کی الگ رجمنٹیں ہیں جو انگریزوں کے زمانے سے بھاٹ رجمنٹیں کہلاتی ہیں

ٹھاکر کی ہلاکت بوجہ زہر

سپاہ گری اور زمینداری ان کے بیٹے ہیں۔
قصبے میں ایک سرکاری ہسپتال تھا۔ اُس زمانے میں لوگ بہت کم بیمار ہوتے تھے

ہسپتال کے وارڈ خالی پڑے رہتے تھے۔ کوئی مریض ہسپتال میں داخل ہو جاتا تو اُسے پوری توجہ ملتی تھی ۔

ایک صبح مجھ کو ہسپتال کے ڈاکٹر کا پیغام ملا کہ ہسپتال میں ایک مریض آیا ہے اور یہ زہر خورانی
کا کیس معلوم ہوا ہے ۔ میں ہسپتال گیا۔ مجھ کو بتایا گیا کہ

مریض کو بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا ہے ۔ ڈاکٹر نے اس کو انجکشن دیا تھا لیکن اس کا اثر نہیں ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر نے کہا کہ اس نے مر جانا ہے اور اس کو انجیکشن اس واسطے دیا ہے کہ تین چار منٹوں کے

واسطے ہوش میں آجاتے اور بتا دے کہ اُس کو زہر کس نے دیا
اسے یا کوئی اشارہ ہی دے دے ۔ موت نے اُس کو ہوش میں آنے کی مہلت نہ دی۔ وہ مر گیا۔

ڈاکٹر تجربہ کار آدمی تھا۔ جس طرح مریض بیہوشی میں تڑپتا تھا، اس کو دیکھ کر ڈاکٹر نے کر دیا تھا

کہ اس نے خود زہر کھایا ہے یا اس کو کسی نے دھو کے سے زہر دے دیا ہے۔ وہ مر گیا تو زہر کی ایک اور

نشانی ظاہر ہونے لگی۔ تھوڑی تھوڑی جھاگ تھی جو اس کے منہ سے پھوٹ آتی تھی ۔
یہ شخص قصبے سے تقریباً چار میل دور کے ایک گاؤں کا رہنے والا بڑا زمیندارہ تھا۔

ٹھاکر اونچی پوزیشن کے لوگ ہوتے تھے یہ بھی اپنے علاقے کا روپے پیسے اور رعب داب والا ٹھاکر تھا۔

بٹھا کر قتل کی معمولی واردات نہیں تھی۔ ڈاکٹر کے کہنے پر میں ٹھا کر کے بڑے بیٹے کو تھانے لے گیا۔

ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم کے لئے لاش کو اپنے پاس
رکھ لیا ۔ تھانے جاکر میں نے ٹھاکر کے بڑے بیٹے کی رپورٹ پر ایف آئی آر تحریر کی۔

باقی کاغذی کارروائی محرز ہیڈ کانسٹیبل کے حوالے کی اور ٹھاکر
کے بیٹے کا بیان لینے لگا ۔ اُس نے بیان دیا اور میں نے اُس کے ساتھ سوال جواب کئے۔

اس کے جوابوں میں سے سوال نکالے اور اس طرح جو بات مجھ کو پتہ چلی وہ یہ تھی کہ ایسی

دشمنی عداوت کسی کے ساتھ نہیں تھی کہ کوئی اسے زہر دے کر انتقام لیتا

گاؤں سے دو ڈھائی فرلانگ دُور ان کا سبزیوں کا باغ تھا۔ اس میں ٹھاکر نے ایک مکان بھی بنایا ہوا تھا کبھی

کبھی رات کو تھا کہ اس مکان میں رہتا تھا۔ پچھلی رات بٹھا کر باغ والے مکان میں گیا تھا۔ آدھی رات سے

بہت پہلے وہاں سے آگیا گھر والے سوتے ہوتے تھے۔ اُس نے اپنی بیوی کو جگایا پھر اس کا بڑا بیٹا تبھی جاگ پڑا۔

انہوں نے دیکھا کہ تھا کہ کو کوئی
تکلیف یہ بھی کہ وہ پیٹ میں درد اور جلن محسوس کرتا تھا۔ گھر والوں نے

اس سے تکلیف

کی بابت پوچھا تو پتہ لگا کہ وہ بات نہیں کر سکتا۔ اس سے کچھ اشارے کئے جو گھر کا کوئی بھی فرد سمجھ نہ سکا ۔

اُس کا بیٹا گاؤں کے دو سیانوں کو جگا کر لے آیا ۔ دونوں نے کہا کہ اس کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ لیا ہے ۔

انہوں نے اس کی ٹانگوں ہاتھوں وغیرہ پر دیکھا لیکن کسی کیڑے مکوڑے کے کا ملنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔

دونوں نے آپس میں صلاح مشورہ کر کے بٹھا کر کے منہ میں اپنی دوائیاں ڈالیں پھر بٹھا کر کوئی بات کئے

بغیر بے ہوش ہو گیا۔ ان سیانوں نے کہا کہ اس کو آرام محسوس ہو رہا ہے اس لئے یہ سوگیا ہے صبح اس کو

اور دوائی دیں گے ۔
کوئی ایک گھنٹے بعد ٹھا کرنے بے ہوشی میں اپنے سینے اور پیٹ پر زور زور سے ہاتھ پھیر نے شروع کر دیتے۔

اس کے ساتھ وہ تڑپتا بھی تھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ آنکھیں بند تھیں بتھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد وہ

اپنی آنکھیں اس طرح زور سے بھینچ لیتا تھا جیسے اُسے بہت تکلیف ہو رہی ہو۔ باقی رات اسی طرح

گزرگئی منہ اندھیرے اس کی حالت اور زیادہ بگڑی تو دو تین بوڑھوں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ

اس کی چار پانی ہسپتال لے چلو۔ اس طرح یہ لوگ بٹھا کر کو نزع کی حالت میں ہسپتال اٹھلاتے ۔
لڑکی اپنے آپ گئی ہوگی
میں معلوم یہ کرنا چاہتاتھا کہ ٹھاکر کا چال چلن اور گاو اے والوں کے ساتھ اس کا سلوک برتاؤ کیا تھا۔

کوئی بیٹا اپنے باپ کو بد معاش نہیں کہ سکتا۔ پھر بھی میں نے اس کے بیٹے سے پوچھا کہ ٹھا کر

کیسا آدمی تھا۔

بیٹے نے کہا کہ وہ ٹھیک ٹھاک آدمی تھا۔ یہ تو پہلے ہی وہ کہ چکا تھا کہ ان کی کسی کے ساتھ خونی

دشمنی نہیں میرے پوچھنے پر ٹھا کر کے بیٹے نے بتایا کہ جائیداد یا زمین کا بھی کوئی تنازعہ نہیں۔

خاندان میں بھی کوئی ایسا جھگڑا نہیں
جو قتل تک پہنچانے والا ہوتا ۔ و تم نے کہاہے کہ تھا کہ جی کبھی کبھی رات باغ میں گزارتے تھے”

لڑکے خالص اور سادہ غذا کی وجہ سے اور سادہ زندگی گزارنے کی وجہ سے پندرہ سولہ سالوں میں پوری

طرح جو ان ہو جایا کرتے تھے۔ آج کل تو ایسے جوان کہیں نظر ہی نہیں آتے ہیں نے اس لڑکی کی گمشدگی

کی رپورٹ کے کر پوچھا تھاکہ وہ خوبصورت تھی اور چال چلن کی کیسی تھی پر ٹھاکر نے مجھ کو بتایا تھا

کہ بہت خوبصورت نہیں تھی، اچھی شکل وصورت کی تھی۔ لڑکی کے باپ کے سامنے تھا کر نے یہ کہا

کہ لڑکی چال چلین کی ٹھیک تھی لیکن بعد میں باپ کو پرے بھیج کر ٹھاکر نے دوسری رائے دے دی ۔

میں نے اس بوڑھے کو خوش کرنے کے واسطے کہا تھا کہ اس کی بیٹی اغوا ہو گئی ہے ٹھاکر نے

مجھ کو کہا یہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ نہیں۔ ان کی لڑکیاں ابھی پوری طرح جوان نہیں ہوتیں

اور عشق باندی شروع کر دیتی ہیں ۔ اس کی لڑکی خود ہی ادھر ادھر ہوگئی ہوگی۔

آپ زیادہ بھاگ دوڑ نہ کریں ۔ اپنے آپ آجاتے گی یا شہر کے کسی کو مٹھے پر پہنچ جاتے گی۔

میں اس شخص کی رائے سے تو متاثر نہیں ہوا۔ یہ تھا کہ بڑے بڑے زمیندارہ ساہوکار اور جاگیردارہ

چھوٹے چھوٹے کسانوں اور مزدوروں کو عزت کے قابل سمجھتے ہی نہیں تھے غریبوں کی بیٹیوں کو

خراب کرنے والے میہی لوگ ہوتے تھے پھر بھی مجھ کو ہی خیال آیا تھا کہ لڑکی اپنے آپ گئی ہو گی

مگر میں اس کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے یہ کیس اپنے جو نیتر سب انکر کو دے دیا تھا

اور وہ تفتیش کر رہا تھا۔ اب میں تھا کر کے قتل کے کیس کی تفتیش کے واسطے اُس کے گاؤں کو جانے لگا

تو سب انسپکٹر وشواناتھ نے مجھ کو روک لیا۔ ایسا ہو گا تو نہیں اس نے مجھ کو کہا لیکن ذہن میں

رکھنا کہ
اس گاؤں کی ایک جوان لڑکی لاپتہ ہے ۔ اس لڑکی کا ٹھا کر کے قتل کے ساتھ تعلق نہیں ہو سکتا تھا۔

ٹھاکر لڑکی کے باپ کو خود تھانے لایا تھا۔ باپ تو تھا نے آتا ہی نہیں تھا۔

(پلنگ پر عورت کی موجودگی (پیار


گاؤں میں جاکر میں ٹھا کر کے گھر گیا۔ وہاں کہرام بیا تھا۔ لاش میرے پیچھے پیچھے آرہی تھی بٹھا کر

کی بیوی کا بیان لیا۔ وہ ٹھاکر کی عمر سے تین چار سال چھوٹی تھی ۔ اس کے بال سفید ہو نا شروع ہو گئے تھے۔

اس نے وہی بات بتائی جو اس کا بیٹا بتا چکا تھا، کہ رات کو باغ سے آیا اور اس کی حالت بگڑی ہوئی تھی۔

وہ کچھ بھی نہ بتاسکا۔ یہ گھر والوں کا اپنا خیال تھا کہ ٹھاکر باغ والے مکان میں تھا اور وہاں سے کچھ کھا کر آیا تھا۔”
میرے دماغ میں ایک سوپ آتی۔ گھر والوں کو پکا پتہ نہیں تھا کہ تھا کہ باغ سے ہی آیا تھا

اور اس نے شام کے بعد سے لے کر رات کو گھر آنے تک باغ والے مکان میں ہی وقت گزارا تھا۔ کوئی اور

اس کو اپنے ساتھ لے گیا ہو گا اور اس کو زہر پلا دیا ہو گا۔
بیوی نے میرے سوالوں کے جو جواب دیتے تھے ، ان سے معلوم ہوا کہ بیوی اُس سے خوش بھی

گھر میں کوئی تنازعہ یا جھگڑا نہیں تھا۔ بیوی یقین کے ساتھ کہتی تھی کہ گاؤں میں کسی

اور کے ساتھ بھی ٹھا کر کا کوئی جھگڑا یا تنازعہ نہیں تھا۔ میں ابھی ٹھا کر کی بیوی کے بیان پر

پورا بھر دستہ نہیں کر سکتا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ اس پر خاوند کی موت کا بہت

بڑا اثر تھا وہ آدھی
مات کہہ کر رونا شروع کر دیتی تھی۔ میں باغ میں چلا گیا۔ یہ سبزیوں کا پانچ چھ

ایکڑ میں پھیلا ہوا باغ تھا۔ اس میں گھنے پودوں کی باڑیں اور درخت بھی تھے۔ باغ کے اندر ہی

ایک طرف ایک مکان تھا۔ یہ کیا تھا لیکن کاریگروں کا بنایا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کا ضمن تھا

جس کی دیوار بھی۔ دو کمرے تھے ۔ پیچھے برآمدہ اور اُدھر بھی تھوڑا سا صحن اور دیوار تھی ۔

ایک دروازہ اُدھر بھی تھا۔ باغ میں کام کرنے والے تین آدمی تھے۔ ان کے تھونپڑے باغ

سے ذرا ہٹ کر تھے۔ ان میں اُن کے بیوی بچتے رہتے تھے۔ میں نے ان تینوں آدمیوں کو بلایا۔

ان تک خبر پہنچ چکی تھی کہ ٹھاکر کے ساتھ کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے۔ اُن کو ابھی یہ پتہ نہیں لگا تھا

کہ ٹھاکر مر چکا ہے۔ میں نے انہیں الگ بیٹھا دیا اور خود مکان کو دیکھنے کے لئے اندر چلا گیا۔

میں نے دیکھا کہ دروازے کے اندر والے کنڈے کے ساتھ ایک تالا لٹکا ہوا تھا جس میں چابی بھی لگی ہوئی تھی۔ میرے ساتھ اب ٹھاکر کا بیٹا نہیں تھا بلکہ ٹھاکر کا کوئی بھی رشتہ دارہ میرے ساتھ نہیں تھا۔ وجہ اس کی یہ بھی کہ ٹھاکر کی لاش آگتی تھی اور میں اس خاندان کے کسی آدمی کو اپنے ساتھ پابند
نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے ان تینوں نوکروں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ جب ٹھاکر اس
مکان میں نہیں ہوتا تو کیا دروازے کو تالا لگا رہتا ہے ؟
ہاں حضور ا ایک نوکر نے جواب دیا ” تالا اسی وقت کھلتا ہے جب ٹھا کر جی آتے ہیں۔ میسج ہم نے دروازے پر تالا نہ دیکھا تو ہم یہ سمجھے کہ ٹھاکر جی اند ر سوئے ہوئے ہیں۔
میں نے ان سے بہت کچھ پوچھنا تھا لیکن میں نے مکان کو اندر سے دیکھنا ضروری سمجھا۔

میں نے پہلے صحن دیکھا پھر اندر گیا۔ اس کمرے میں میری نظر سب سے پہلے جس چیز پر پڑی

وہ دیسی شراب کی بوتل تھی اور دو گلاس۔ یہ لکڑی کے معمولی اور چھوٹے سے میز پر پڑے ہوتے تھے۔

میں نے ہیڈ کانسٹیبل کو کہا کہ وہ بوتل اور گلاسوں کو احتیاط سے اُٹھا کر قبضے میں لے لے۔

ان چیزوں کا قبضے میں لینا اس واسطے ضروری تھا کہ ان پر انگلیوں کے نشانات کا پایا جانا لازمی تھا

اور مجھ کو اپنا شک یہ تھا کہ زہر شراب میں لایا گیا ہے ۔ دونوں گلاسوں میں چند قطرے شراب موجو د تھی ۔

میز کے ساتھ پلنگ پڑا ہوا تھا۔ میں نے پلنگ پوش کو غور سے دیکھا۔ ایسے نشان پاتے گئے جن سے پتہ لگتا تھا

کہ اس پلنگ پر عورت موجود رہی ہے۔ میں نے اس کمرے کی تلاشی لی پھر میں دوسرے کمرے

میں گیا۔ وہاں بھی تلاشی لی۔ ایسے سراغ پاتے گئے جو بتاتے تھے کہ میاں کوئی عورت کچھ

وقت گزارگئی ہے لیکن میں نے اس پر زیادہ غور نہ کیا۔ اس واسطے نہ کیا کہ

مجھ کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ یہاں عورتیں اور گانے بجانے والیاں آتی رہتی ہیں ۔ آپ یہ سمجھ لیں

کہ وہاں سے مجھ کو
ایسی کوئی چیز اور ایسا کوئی سراغ نہ ملا جو مجھ کو تفتیش میں مدد دیتا۔ میں مکان کے دوسری

طرف گیا ۔ اُدھر چھوٹا سا ایک اور صحن تھا۔ اُدھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ باہر نکل کر دیکھا۔

آگے پانی تھا اور اس سے آگے کھیت شروع ہو جاتے تھے۔ وہاں میرے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔

میں مکان کے اندر چلا گیا اور پلنگ پر بیٹھ کر تفتیش شروع کر دی ۔ سب کو باہر بھیج کر

باغ کے ایک نوکر کو اندر بلایا۔ وہ بہت ڈرا اور گھرایا
ہوا تھا۔ اس کے ساتھ رسمی سی باتیں کر کے اُس کا ڈر دور کیا ۔ ” رات کو ٹھاکر کے ساتھ

یہاں کون کون آیا تھا ؟ میں نے پوچھا۔
حضور اس نے جواب دیا میں نے اچھی طرح دیکھا
ٹھاکر جی اکیلے آئے تھے ” تم اُس وقت کہاں تھے ؟ میں نے پوچھا تم اس مکان
کے اندر تھے یا باہر ؟
حضور اُس نے جواب دیا باغ میں کام کرنے والے کسی بھی مرد عورت یا بچے کو اس مکان کے

قریب آنے کی اجازت نہیں۔ جب ٹھاکر جی مکان کے اندر ہوتے ہیں تو ہم ادھر آنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے ۔

کل شام جب ٹھاکر آئے تو میں رہٹ پر تھا۔ انہوں نے مجھ کو دیکھا اور کہنے لگے کہ تم اپنے گھر چلے جاؤ ۔ میں چلا گیا “
وقت کیا تھا ؟“
سورج غروب ہو چکا تھا اور اندھیرا گہرا ہورہا تھا۔ اس نے جواب دیا ۔

” تم نے کسی اور کو ٹھاکر کے بعد باغ میں آتے دیکھا تھا ؟
میں نے پوچھا ۔
نہیں حضور اس نے جواب دیا ”میں وہاں سے
ہٹ گیا تھا “
یہ تو معلوم ہوگا کہ یہاں اس مکان میں کیا ہوتا تھا ؟ میں
نے پوچھا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا یہاں بٹھا کر کسی عورت کو بلاتا ہوگا اور یار دوستوں کہ بلا کر ناش و غیرہ کھیلتا ہو گا
میں آپ کو بتاتا ہوں حضور ! اُس نے کہا مکان کے اندر جو کچھ بھی ہوتا تھا اس کی بابت صرف

ایک آدمی بتا سکتا ہے … اس کا نام درگا ہے اور وہ ٹھا کر ہی کا خاص نوکر ہے ۔ وہ ہر وقت اور

ہر کام میں ٹھاکر جی کے ساتھ رہتا ہے۔ ٹھاکر جی کا پستول بھی درگا کے کندھے کے ساتھ لٹکتا رہتا ہے۔

نوکروں میں صرف درگا ہے جو اس کے اندر جاسکتا ہے ؟ کیا رات کو بھی وہ نہیں تھا ؟

وہ تو سورج غروب ہونے سے پہلے ہی آگیا تھا اُس نے جواب دیا یہ تو میں نے اچھی طرح دیکھا تھا

کہ باہر والے دروازہ پر تالا لگا ہوا تھا جو درگا نے کھولا تھا”
رات کو جب ٹھاکر یہاں سے نکلا اس وقت تم کہاں تھے ؟” مجھے کچھ معلوم نہیں حضور اُس نے جواب دیا “

میں اپنے گھر چلا گیا تھا۔

بقیہ اگلی قسط میں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *